قرآن مجید جس عہد اور جس سماج میں نازل ہوا، اس کا سب سے تکلیف دِہ پہلو لاقانونیت، بدامنی اور غارتگری تھا۔ لا قانونیت کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ جزیرۃ العرب میں باضابطہ کسی حکومت کا وجود نہیں تھا۔ عرب کے گرد و پیش جو حکومتیں قائم تھیں، وہ نسلی برتری اور کہتری پر یقین رکھتی تھیں اور جو انسانی سماج پیدائشی عظمت اور تحقیر کے تصور پر قائم ہو ظاہر ہے کہ وہاں عدل و انصاف کا قائم ہونا ممکن نہیں۔ ایسے ماحول میں اللہ کی آخری کتاب قرآن مجید کے نزول کا آغاز ہوا تھا۔
اس کتاب میں جو سب سے پہلی آیت نازل ہوئی، اس میں علم اور قلم کی اہمیت اُجاگر کرتے ہوئے بتایا گیا کہ تمام انسان کا مادۂ تخلیق ایک ہی ہے۔ اس میں انسانی وحدت کی طرف اشارہ تھا، علم انسان کو قانون کا پابند بناتا ہے اور انسانی مساوات کے تصور سے عدل کا جذبہ اُبھرتا ہے اور تکریمِ انسانیت کا عقیدہ پروان چڑھتا ہے؛ اسی لئے ایک ایسا ملک جو امن و امان سے یکسر محروم تھا او ر جہاں ظلم و جور اور دہشت گردی نے قانون کا درجہ حاصل کر لیا تھا، اسلام نے اس کو امن و سلامتی سے ہمکنار کیا، انسانی اُخوت کا سبق پڑھایا اوررسول اللہ ﷺ کی وہ پیشین گوئی پوری ہوئی کہ ایک خاتون تنہا اونٹنی پر سوار ہو کر حیرہ (عراق) یمن سے شام تک کا سفر کرے گی۔ (بخاری، باب علامۃ النبوۃ فی الاسلام، حدیث نمبر: ۳۵۹۵)
اسلام نے اپنے متبعین کیلئے دو ایسی تعبیرات اختیا رکیں، جن کے معنی ہی ’’ امن و امان‘‘ اور ’’صلح و سلامتی ‘‘ کے ہیں ، یعنی ’’ مومن اور مسلم ‘‘۔ مومن کے معنی امن دینے والے کے ہے اورمسلم کے معنی صلح اور دوسروں کی سلامتی کا لحاظ رکھنے والے کے۔ اس کتاب کی ابتداء ’’ بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ‘‘ سے ہوئی ہے جس میں اللہ تعالیٰ کی رحمت ِعامہ، اور اُس کے مہربان ہونے کا ذِکر ہے اور پہلی سورہ کی پہلی آیت میں ہی خدا کو ’’ تمام کائنات کا رب ‘‘ قرار دیا گیا ہے۔ رب کا لفظ بےپناہ شفقت اور ممتا کو ظاہر کرتا ہے اور تمام عالم کا رَب کہہ کر پوری کائنات کو رشتۂ اُخوت میں باندھ دیا گیا ہے اور ایسی آفاقیت کا تصور دیا گیا ہے کہ جس میں پوری انسانیت ایک کنبہ اور ایک خاندان کا درجہ رکھتی ہے۔ غرض کہ قرآن مجید امن و امان، انسانی اُخوت اورآفاقیت کا علمبردار ہے؛ لیکن بدقسمتی سے سورج پر تھوکنے کی کوشش کی جارہی ہے اور بعض تنگ نظر حضرات یہ کہنے کی جسارت کر رہے ہیں کہ قرآن مجید میں کچھ نقص ہے (نوذ باللہ)، جس کی وجہ سے اس کتاب کے پڑھنے والوں میں دہشت گردی کا رجحان پیدا ہوتا ہے۔ یہ ایسی بہتان تراشی ہے کہ کوئی ایسا شخص جس نے سر سری طور پر بھی قرآن مجید کا مطالعہ کیا ہوگا، وہ ہر گز اس سے متفق نہیں ہو سکتا، کیونکہ یہ دن کو رات اور برف کو آگ کہنے کے مترادف ہے !
عربی زبان میں دہشت گردی کو ’’ ارہاب‘‘ کے لفظ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ قرآن مجید نے مسلمانوں کو یقیناً اس بات کی تعلیم دی ہے کہ ان کے پاس ایسی طاقت موجود رہنی چاہئے کہ ان کے دشمنوں کو ظلم وجور کے ارتکاب کی ہمت نہ ہو اور وہ مرعوب رہیں ، اس کو قرآن نے ’’ قوت مرہبہ ‘‘ سے تعبیر کیا ہے ؛ چنانچہ ارشاد ہے : ’’ان کے لئے جس قدر ممکن ہو طاقت اور گھوڑے تیار کر کے رکھو؛ تاکہ تم اس کے ذریعہ اللہ اور اپنے دشمن اور دوسرے لوگوں کو مرعوب رکھ سکو جنھیں تم نہیں جانتے؛ لیکن اللہ انہیں جانتا ہے۔ ‘‘ (سورہ الانفال: ۶۰)۔ قرآن کے اس بیان سے واضح ہے کہ طاقت دشمنوں کو مرعوب رکھنے اور ان کو ظلم وجور سے باز رکھنے کیلئے ہے، نہ کہ بے قصور لوگوں کو نشانہ بنانے اور تباہی و بربادی پھیلانے کیلئے۔
قرآن کے احکام ِجہاد سے یہ غلط فہمی پیدا کی جاتی ہے کہ وہ بے قصور، کسی بھی غیر مسلم پر حملہ کرنے اور اس کو ہلاک کر دینے کی اجازت دیتا ہے اور اس کے لئے اس آیت کو پیش کیا جاتا ہے، جس میں کفار کو قتل کرنے کا عمومی حکم ہے۔ یہ محض غلط فہمی ہے، اس آیت کا تعلق مشرکین مکہ سے ہے، وہ مستقل طور پر مسلمانوں سے بر سرِجنگ تھے اور مسلمانوں کی طرف سے کی جانے والی صلح کی کوششوں کو قبول کرنے کیلئے قطعاً تیار نہیں تھے؛ چنانچہ جو لوگ مسلمانوں سے برسرِپیکار نہ ہوں اور جن لوگوں نے ان کو گھر سے بے گھر اور شہر سے شہر بدر نہیں کیا تھا، قرآن ان کے ساتھ حسن سلوک اور عدل و احسان کا حکم دیتا ہے؛ چنانچہ ارشاد ہے: ’’اللہ تمہیں اس بات سے منع نہیں فرماتا کہ جن لوگوں نے تم سے دین (کے بارے) میں جنگ نہیں کی اور نہ تمہیں تمہارے گھروں سے (یعنی وطن سے) نکالا ہے کہ تم ان سے بھلائی کا سلوک کرو اور اُن سے عدل و انصاف کا برتاؤ کرو، بے شک اللہ عدل و انصاف کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔ ‘‘ (الممتحنہ:۸)۔ دہشت گردی میں بنیادی طور پر اس بات پر توجہ نہیں دی جاتی کہ اصل ظالم کون ہے؟ بلکہ اس کے متعلقین میں جو بھی ہاتھ آجائے، اسے نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اسلام نے اس کو قطعاً غیر اُصولی اور غیر انسانی حرکت قرار دیا ہے، قرآن نے قاعدہ مقرر کر دیا ہے کہ ایک شخص کی غلطی کا بوجھ اور اس کی ذمہ داری دوسرے پر نہیں ڈالی جاسکتی :
’’اور کوئی بوجھ اٹھانے والا دوسرے کا بارِ (گناہ) نہ اٹھا سکے گا۔ ‘‘ (الفاطر:۱۸)
قرآن نے ایک شخص کے قتل کو پوری انسانیت کے قتل کے مترادف قرار دیا ہے:
’’جس نے کسی شخص کو بغیر قصاص کے یا زمین میں فساد (پھیلانے یعنی خونریزی اور ڈاکہ زنی وغیرہ کی سزا) کے (بغیر ناحق) قتل کر دیا تو گویا اس نے (معاشرے کے) تمام لوگوں کو قتل کر ڈالا۔ ‘‘ (المائدہ: ۳۱)
قرآن نے ان اسباب کو بھی روکنے کی کوشش کی ہے جو دہشت گردی کا موجب بنتے ہیں۔ زیادہ تر دہشت گردی کا سبب یہ بات ہوتی ہے کہ لوگ دوسروں کو جبراً اپنے مذہب و عقیدہ کا متبع بنانا چاہتے ہیں، عیسائیوں کی مذہبی تاریخ اس کی کھلی ہوئی مثال ہے، قرآن مجید نے صاف اعلان کر دیا کہ دین کے معاملہ میں جبر و اِکراہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے:’’دین میں کوئی زبردستی نہیں، بیشک ہدایت گمراہی سے واضح طور پر ممتاز ہو چکی ہے۔ ‘‘ (البقرہ: ۲۵۶) اس لئے اس بات سے بھی منع کیا گیا کہ کوئی گروہ دوسروں کے مذہبی مقتداؤں اور پیشواؤں کو بُرا بھلا کہے، کہ اس سے جذبات مشتعل ہوتے ہیں : ’’اور (اے مسلمانو!) تم ان (کے معبودوں ) کو گالی مت دو جنہیں یہ اللہ کے سوا پوجتے ہیں پھر وہ لوگ (بھی جواباً) جہالت کے باعث ظلم کرتے ہوئے اللہ کی شان میں دشنام طرازی کرنے لگیں گے۔ ‘‘ (الانعام:۱۰۸)
کسی معاشرہ میں دہشت گردی کے پنپنے کا اصل سبب ظلم و ناانصافی ہے۔ جو گروہ مظلوم ہوتا ہے، اگر وہ ظالم کا مقابلہ نہیں کرپاتا ہے اور انصاف کے حصول سے محروم رہتا ہے تو اس میں منتقمانہ جذبات پرورش پاتے ہیں اور جب وہ دیکھتا ہے کہ قانونی راستے بند ہیں تو غیرقانونی راستہ اختیار کر لیتا ہے، اسلئے دہشت گردی کو روکنے کا مؤثر ترین طریقہ یہ ہے کہ معاشرہ میں ظلم و جور کا دروازہ بند کیا جائے اور عدل و انصاف کو مکمل غیرجانبداری کے ساتھ نافذ کیا جائے تاکہ دہشت گردی پر اُبھارنے والے عوامل باقی نہ رہیں۔ اسی لئے قرآن نے جگہ جگہ عدل کا حکم دیا ہے اور اس کی بڑی تاکید کی ہے، ارشاد ہے کہ: ’’بیشک اللہ (ہر ایک کے ساتھ) عدل اور احسان کا حکم فرماتا ہے۔ ‘‘ (النحل: ۹۰) قرآن نے تاکید کی ہے کہ کسی قوم سے عداوت بھی تم کو اس کے ساتھ ظلم و ناانصافی پر کمربستہ نہ کردے اور جادۂ عدل سے ہٹانے نہ پائے۔ (المائدہ)
اس وقت صورتحال یہ ہے کہ عالم اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نہایت شدت کے ساتھ دہشت گرد ہونے کا پروپیگنڈہ کیا جا رہا ہے؛ حالانکہ خود مسلمان، دہشت گردی کا نشانہ بنے ہوئے ہیں، جن ملکوں میں مسلمان اقلیت میں ہیں وہاں مسلمانوں کی حالت ِزار ناقابل بیان ہے، مسلمان اگر اپنے ملک میں بھی خود اپنی خواہش اور مرضی سے اسلامی شعار اپنانا چاہتے ہیں تو ان کو تہذیبی تصادم اور شدت پسندی کا نام دے کر مداخلت کی راہ ہموار کی جاتی ہے اور ان سے وہی کچھ کہا جاتا ہے، جو انبیاء کی اقوام ان سے کہا کرتی تھیں، مثلاً حضرت شعیب علیہ السلام اور ان کی قوم کا ذکر کرتے ہوئے کہا گیا کہ ’’حضرت شعیب کی قوم میں سے تکبر پر آمادہ گروہ نے کہا کہ اے شعیب! ہم تجھ کو اور تیرے ساتھ ایمان لانے والوں کو اپنے شہر سے نکال کر ہی رہیں گے، یا تو تم ہمارے دین میں واپس آجاؤ۔ ‘‘ (الاعراف:۸۸)
’’یہود و نصاریٰ آپ سے اس وقت تک راضی نہیں ہوسکتے، جب تک آپ ان کے دین کے پیرو نہ ہو جائیں ۔ ‘‘ (البقرہ:۱۲۰)
آج پوری دنیا میں مسلمانوں کے خلاف اصل ناراضگی اسی کی ہے کہ یہ مغرب کی مادَر پدر آزاد ثقافت کے سامنے سر نگوں کیوں نہیں ہوتے؟ یہ اخلاقی اقدار اور شرم و حیاء کے علمبردار کیوں ہیں ؟ مسلمانوں کا کام یہ ہے کہ وہ ان مشکل حالات میں صبر و استقامت سے کام لیں اور مغرب و مشرق کی مشتر کہ دہشت گردی اور انسانیت سوزی سے خوف زدہ نہ ہوں کہ یہ ایک آندھی ہے جو گذرجائے گی۔ اللہ تعالیٰ نے حضراتِ صحابہ کی استقامت کا ذِکر فرمایا ہے کہ انھیں جس قدر ڈرایا جاتا، اسی قدر اُن کے ایمان و یقین میں اضافہ ہوتا جاتا تھا : ’’(یہ) وہ لوگ (ہیں ) جن سے لوگوں نے کہا کہ مخالف لوگ تمہارے مقابلے کیلئے (بڑی کثرت سے) جمع ہو چکے ہیں سو ان سے ڈرو، تو (اس بات نے) ان کے ایمان کو اور بڑھا دیا اور وہ کہنے لگے: ہمیں اللہ کافی ہے اور وہ کیا اچھا کارساز ہے۔ ‘‘(آل عمران: ۱۷۳)
ایمان کی علامت یہی ہے کہ اللہ کے دین کی سر بلندی کی راہ میں جس قدر ابتلائیں اورآزمائشیں آئیں، عداوتوں کے طوفان اُٹھیں، مخالفتوں کی لہریں موجزن ہوں، خوف ودہشت کا ماحول پیدا کیا جائے، حوصلہ شکن حالات کا سامنا ہو، اسی قدر ان کی ہمتیں بلند ہوتی جائیں، ان کے حوصلے ٹوٹنے نہ پائیں اور مخلوق کا خوف ان پر غالب نہ ہونے پائے۔ اس وقت پوری دنیا میں مسلمانوں کے تئیں دہشت گردی کا جو پروپیگنڈہ ہو رہا ہے، یہاں تک کہ قرآن جیسی عظیم کتاب کو بھی نشانۂ تنقید بنایا جا رہا ہے، اس کا مقصد بھی یہی ہے کہ مسلمان ہمت ہار جائیں، وہ مغرب کی ریشہ دوانیوں کے سامنے سر نگوں ہو جائیں اور اسلام کے بارے میں احساسِ کمتری میں مبتلا ہوکر رہ جائیں، پس ان حالات میں مسلمانوں کیلئے اپنا حوصلہ بلند رکھنا اور صبر و استقامت کی راہ اختیار کرنا ضروری ہے۔