حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہماروشن ستارے
ایک مرتبہ کسی نےمشہور صحابی حضرت سیدنا عمران بن حصین رضیَ اللہ عنہما سے ایک شرعی مسئلہ پوچھا:ایک آدمی نے اپنی بیوی کو ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دے دیں، اس صورت میں عورت اس پر حرام ہوگئی یا نہیں ؟ آپ رضیَ اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا: ایک مجلس میں تین طلاقیں دینے والا گناہ گار ہے اور عورت اس پر حرام ہوگئی ہے، اب اسی شخص نے جلیل القدر صحابی حضرت سیدنا ابو موسیٰ اشعری رضیَ اللہ عنہ کی خدمتِ اقدس میں یہی مسئلہ بتاکر حضرت عمران بن حصین کی عیب جوئی کرنا چاہی تو حضرت ابو موسی اشعری رضیَ اللہ عنہ نے (نہ صرف حضرت عمران کے جواب کی تصدیق فرمائی بلکہ) آپ کے لئے دعاکی : الٰہی! ہمارے اندر ابو نُجَیْد (حضرت عمران بن حصین) جیسے بہت سے آدمی پیدا فرمادے۔
حضرت ابونُجَیْدعمران بن حصین 7 ہجری میں اسلام لائے صحیح قول کے مطابق آپ کے والد صاحب بھی مسلمان ہوگئے تھےآپ نے کئی غزاوات میں شرکت کی، فتحِ مکہ کے موقع پرآپ رضیَ اللہ عنہ اس شان سے مکہ کی حدود میں داخل ہوئے کہ قبیلہ خزاعہ کا جھنڈا آپ کے ہاتھ میں تھا۔ حنین اور طائف کے معرکوں میں بھی آپ پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ساتھ ساتھ رہے۔ آپ نے اپنی رہائش اپنے قبیلے میں رکھی لیکن بکثرت مدینے آتے رہتے اور پیارے نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے سوالات پوچھتے رہتے ایک مرتبہ آ پ رضیَ اللہ عنہ نے بیٹھ کر نماز پڑھنے والے شخص کے بارے میں سوال کیا تو نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جس نے کھڑے ہوکر نماز پڑھی وہ افضل ہے، جس نے بیٹھ کر نماز پڑھی اس کے لئے کھڑے ہوکر نماز پڑھنے والے کے ثواب کا آدھا ہے، اور جو لیٹ کر نماز پڑھے اس کےلئے بیٹھنے والے کے ثواب کا آدھا ہے۔
علمی مقام: علم وفضل کے اعتبار سے حضرت عمران بن حصین رضیَ اللہ عنہما کا شمار فقہا صحابہ میں ہوتا ہے۔
فاروقِ اعظم رضیَ اللہ عنہ نے بصرہ والوں کو فقہی مسائل کی تعلیم دینے کےلئے آپ کا انتخاب کیا اور آپ کو بصرہ بھیجا
مشہور تابعی بزرگ حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: بصرہ میں ہمارے پاس آنے والوں میں سب سےبہتر عالم فاضل شخصیت حضرت عمران بن حصین رضیَ اللہ عنہما کی تھی۔
جذبَۂ علمِ دین: حضرت عمران رضیَ اللہ عنہ کے سر اور داڑھی کے بال سفید ہوچکے تھے مگر علمِ دین سکھانے کا جذبہ عروج پر تھا لہٰذا اس حالت میں بھی ایک ستون سے ٹیک لگاکر ارد گرد بیٹھے علم کے طلب گاروں کو فرامین ِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم بیان کرتے۔
حدیث کی اہمیت: ایک مرتبہ آپ نے حدیث بیان کرنا شروع کی تو ایک شخص نے کہا: ہمیں کتابُ اللہ سے کچھ بیان کیجئے، یہ سن کر آپ ناراض ہوگئے اور فرمایا: تم بے وقوف ہو، اللہ پاک نے کتاب اللہ میں زکوٰۃ کو تو بیان کیا ہے مگر یہ کہاں فرمایا ہے کہ دو سو (درہم ) میں سے پانچ (درہم ) ہوں گے، اللہ کریم نے اپنی کتاب میں نماز کا تو ذکر کیا ہے مگریہ کہاں فرمایا ہے کہ ظہر،عصر اور عشاء کی چار، مغرب کی تین اور فجر کی دو رکعتیں فرض ہیں، اللہ رحیم نے قراٰن مجید میں طواف کا تو ذکر فرمایا ہے لیکن یہ کہاں بیان کیا ہے کہ طَواف اور صفا مروہ کے چکر سات ہیں، ہم احادیث میں یہاں یہی احکام بیان کرتے ہیں احادیثِ مصطفےٰ قراٰن کی تفسیر ہیں۔
ایک مرتبہ آپ نے حدیث بیان کی کہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا: حیا بھلائی ہی لاتی ہے، کسی نے کہا:کسی کتاب میں لکھا ہےکہ بعض دفعہ حیا سے وقار اور اطمینان ملتا ہے اور بعض دفعہ اس سے کمزوری۔ آپ نے فرمایا: میں تمہیں رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی حدیث بتارہا ہوں اور تم مجھ سے کسی کتاب کی بات کررہے ہو میں اب تمہیں حدیث بیان نہیں کروں گا۔
فرمانِ مبارک: حضرت سیّدنا عمران بن حصین رضی اللہُ عنہما فرماتے ہیں: کھانا کھلانے والے چلے گئے اور کھانا مانگنے والے رہ گئے، وعظ ونصیحت کرنے والے چلے گئے اور غافل لوگ پیچھے رہ گئے۔
جج کا عہدہ چھوڑ دیا: ایک مرتبہ آپ رضیَ اللہ عنہ کو گورنرِ بصرہ کی جانب سےبصرہ کا قاضی ( یعنی جج)مقرر کیا گیا، دوآدمی اپنا جھگڑا لے کر آئے، آپ نے ایک کے حق میں فیصلہ دیا تو دوسرا کہنے لگا: آپ نے میرے خلاف فیصلہ دیا ہے، اللہ کی قسم! یہ غلط فیصلہ ہے، یہ سن کر آپ رضیَ اللہ عنہ گورنر کے پاس چلے آئے اور اپنا استعفیٰ پیش کردیا، گورنر نے کہا: آپ کچھ عرصہ اس عہدہ پر برقرار تَو رہئے، مگر آپ نے فرمایا: نہیں! جب تک میں اللہ کا عبادت گزار اور اطاعت و فرمانبرداری کرنے والا ہوں دو بندوں کے درمیان کبھی فیصلہ نہیں کروں گا۔
ایک مرتبہ ایک شخص نے آپ رضیَ اللہ عنہ کے سامنے سورۂ یوسف پڑھی آپ نے سورت توجہ سے سنی، پھر وہ شخص آپ سے کچھ مانگنے لگا، آپ رضیَ اللہ عنہ نے کہا: اِنَّا لِلّٰہ ِوَاِنَّا اِلَیْہِ رٰجِعُوْن، پیارے نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایاہے: تم قراٰن پڑھو پھر اللہ سے سوال کرو، عنقریب ایک قوم آئے گی جو قراٰن پڑھے گی اور لوگوں سے مانگے گی۔
صبر و شکر اور بیماری حضرت سیدنا عمران بن حصین رضیَ اللہ عنہما بڑے صابر و شاکر تھے۔ 30 سال کے طویل عرصہ تک پیٹ کی بیماری میں مبتلا رہے اس بیماری میں آپ نہ تو کھڑے ہوتے نہ بیٹھتےبس پیٹھ کے بل لیٹے رہتے۔
فرشتوں کے سلام کی آواز سُنائی دیتی حضرت سیدنا عمران بن حصین رضیَ اللہ عنہماکو فرشتے سلام کیا کرتے تھے جس کی آواز آپ خود سنتے تھے۔فرماتے ہیں: فرشتے مجھے سلام کیاکرتے تھے، کسی نے پوچھا: سلام کی آواز آپ کے سر کی جانب سے آتی تھی یا پاؤں کی طرف سے؟ فرمایا: سر کی جانب سے۔
وصال حضرت عمران بن حصین رضیَ اللہ عنہما نے سن 52 ہجری میں وصال فرمایا، کتبِ احادیث میں آپ کی 130 روایات ملتی ہیں۔
No comments:
Post a Comment