حضرت محمدؐ کی بابرکت دعائیں

 

حضرت محمدؐ کی  بابرکت دعائیں


پیارے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اپنے صحابَۂ کرام رضی اللہُ عنہم

کو مختلف لمحات اور جگہوں پر مختلف دعاؤں سے نوازا۔ اس مضمون میں وہ بابرکت دعائیں موجود ہیں جن سے صحابۂ کرام کو مالی فوائد حاصل ہوئے ۔


حضرت عروہ نےمال میں وسعت یوں پائی:رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حضرت عُرْوہ بارِقی رضیَ اللہ عنہ کو ایک دینار دیا تاکہ وہ ایک بکری خرید لائیں، حضرت عروہ نے اس دینار سے دو بکریاں خریدلیں راستے میں ایک خریدار مل گیاآپ نے ایک بکری اس کے ہاتھ ایک دینار میں بیچ دی پھر ایک دینار اور ایک بکری لے کر بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوگئے یہ دیکھ کر آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے آپ کے لئے برکت کی دعا کی۔ راوی کہتے ہیں: اگرحضرت عروہ بارقی مٹی بھی خریدتے تو اس میں بھی نفع پالیتے۔

ایک روایت کے مطابق کچھ سامانِ تجارت لایا گیا تو حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّمنے مجھے ایک دینار دیا اور ارشاد فرمایا:اے عروہ! تم  ہمارے لئے ایک بکری خرید لاؤ، حضرت عروہ رضیَ اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں سامانِ تجارت کے پاس پہنچا اور ایک ساتھی سے بھاؤ تاؤ کرکے اس دینار کے بدلے دو بکریاں خرید لیں، ابھی واپس آرہا تھا کہ ایک آدمی مل گیا اس نے بکری کے ریٹ پوچھے اور خریدنی چاہی تو میں نے اسے ایک بکری ایک دینار کے بدلے میں بیچ دی پھر بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوگیا اور عرض کی: یارسول اللہ! یہ آپ کا دینار اور یہ آپ کی بکری! پھر پورا واقعہ بیان کردیا، نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے یوں دعا دی: اللہ! اس کے سودے میں برکت دے، حضرت عروہ رضیَ اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں اس کے بعد کوفہ میں ایک جگہ ”کناسہ “ کی طرف جاتا  تو گھر لوٹنے سے پہلے چالیس ہزار نفع کمالیا کرتا تھا۔


حضرت عبد الرحمٰن  بن عوف کے لئے دعائے برکت: ایک مرتبہ نبیِّ کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے صحابۂ کرام رضی اللہُ عنہم کو راہ ِخدا میں صدقہ دینے کی ترغیب ارشاد فرمائی تو حضرت عبد الرحمٰن بن عوف رضی اللہُ عنہ اپنے گھر سے چار ہزار درہم لے آئے اور بارگاہِ رسالت میں عرض گزار ہوئے: یارسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ! میرے گھر میں آٹھ ہزار درہم تھے چار ہزار راہ ِ خدا میں دیتا ہوں اور بقیہ چار ہزارگھر والوں کے لئے روک لئے ہیں ، یہ سن کر رحمتِ عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے مبارک ہونٹوں پر یہ دعا جاری ہوگئی: بَارَکَ اللہُ لَکَ یعنی اللہ تمہیں برکت دے، جو دیا ہے اس میں بھی اور جو گھر والوں کے لئے روکا ہے اس میں بھی۔

 ایک مرتبہ برکت کی دعا یوں پائی کہ آپ نے ایک عورت سے گٹھلی بھر سونا بطورِ حق مہر نکاح کیا، نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اﷲ تمہیں برکت دے ولیمہ کرو اگرچہ ایک بکری سے ہی ہو۔

 بارگاہِ رسالت سے برکت کی اتنی دعائیں پالینے پر آپ فرماتے ہیں: میرا اپنے بارے میں یہ خیال ہے کہ اگر پتھر اٹھالوں تو بھی امید ہوگی اس کے نیچے سونا یا چاندی مل جائے گی۔


حضرت انس نے مال میں کثرت یوں پائی: اَللّٰھُمَّ اَکْثِرْ مَالَہٗ وَوَلَدَہٗ وَاَطِلْ عُمُرَہٗ وَاغْفِرْ ذَنْبَهُ یعنی اے اللہ! اس کے مال اور اولاد میں کثرت عطا فرما، اسے درازیِ عمر عطا فرما اور اس کی مغفرت فرما۔ تین دعاؤں کی مقبولیت کا جلوہ تودنیا ہی میں حضرت انس رضی اللہُ عنہ نے اس طرح دیکھ لیا کہ ہر شخص کا باغ سال میں ایک مرتبہ پھل دیتا تھا جبکہ آپ کا باغ سال میں دو مرتبہ پھل دیتا تھا بلکہ برکت کا یہ عالَم ہوا کہ حضرت انس رضی اللہُ عنہ کے باغ میں ایک ایسا گلِ ریحان تھا جس سے مشک کی خوشبو آتی۔

حضرت انس رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں: خدا کی قسم! (اس دعا کی برکت سے) میرا مال بہت زیادہ ہے اور آج میری اولاد اور اولاد کی اولاد سو کے قریب ہے۔


حضرت ابو امامہ نے مالِ غنیمت اور جان کی حفاظت یوں پائی: ایک مرتبہ نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حضرت ابوامامہ باہلی رضی اللہُ عنہ کو جنگ پر روانہ کیا تو آپ نے بارگاہ ِرسالت میں عرض کی: یارسول اللہ! میرے لئے شہادت کی دعا کیجئے، نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے یوں دعا کی:اے اللہ! انہیں سلامت رکھ اور مالِ غنیمت عطا فرما ،آپ کہتے ہیں: پھر ہم نے جہاد میں حصہ لیا اور سلامت رہے اور مالِ غنیمت بھی حاصل کیا، پھر دوسری اور تیسری جنگ کے موقع پربھی میں نے یہی عرض کی تو حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے وہی دعادی، ہم ہر مرتبہ محفوظ و سلامت رہے اور بہت سارا مالِ غنیمت لے کر واپس پلٹے۔


حضرت حکیم نے تجارت میں کشادگی یوں پائی:ایک مرتبہ بحرین سے مال آیا نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے وہ مال صحابہ میں تقسیم کرنا شروع کیا،حضرت حکیم بن حزام رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں کہ جب مجھے بلایا اور مٹھی بھر کر مال عطا فرمایا تو میں نے عرض کی: یارسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم! یہ میرے لئے بہتر ہے یا اس میں آزمائش ہے؟ ارشاد فرمایا: تیرے لئے آزمائش ہے، حضرت حکیم بن حزام رضی اللہُ عنہ کہتے ہیں: میں نے وہ سارا مال واپس لوٹادیا اور عرض کی : خدا کی قسم ! اب میں آپ کے بعد کسی سے بھی تحفہ نہیں لوں گا، پھرعرض کی: یارسول اللہ! آپ میرے لئے برکت کی دعا کردیجئے، نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے یوں دعا کی:اے اللہ! اس کے سودے میں برکت ڈال دے۔ حضرت حکیم تجارت میں بڑے خوش نصیب تھے کہیں بھی کسی سودے میں آپ کو کوئی نقصان اور گھاٹا نہیں ہوا۔

 ایک مرتبہ حضرت حکیم بن حزام رضی اللہُ عنہ نے اپنا ایک مکان حضرت معاویہ رضی اللہُ عنہ کےہاتھ ایک لاکھ کے بدلے میں بیچا کسی نے کہا: آپ نے یہ مکان ایک لاکھ میں (اتنا سستا) کیوں بیچ دیا؟فرمایا:اللہ کی قسم! (بڑے فائدے میں بیچا ہے) میں نے اس مکان کو زمانۂ جاہلیت میں ایک مشکیزہ شراب کے بدلے میں خریدا تھا اب تم سب گواہ ہوجاؤ کہ مکان کی ساری رقم راہِ خدا میں دیتا ہوں۔


حضرت عبد اللہ نے سودے میں برکت یوں پائی:نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ایک جگہ سے گزر ہوا تو دیکھا کہ حضرت عبد اللہ بن جعفر رضی اللہُ عنہما بچّوں کے کھیلنے کے لئے مٹی سے بنا ہوا کھلونا بیچ رہے تھے، زبان مبارک پر یہ بابرکت دعا جاری ہوگئی: اے اللہ! اس کے سودے میں برکت رکھ دے۔

 ایک روایت کے مطابق حضرت عبد اللہ بن جعفر رضی اللہُ عنہما فرماتے ہیں کہ میں اپنے بھائی کی بکری کا سودا کررہا تھا کہ نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم تشریف لے آئے اور مجھے دیکھ کر کہا: اے اللہ! اس کے سودے میں برکت دے، آپ فرماتے ہیں: (بس اس دعا کا ملنا تھا کہ) اس کے بعد جو بھی چیز میں نے خریدی یا بیچی ہے اس میں مجھے برکتیں ملی ہیں۔ 


Hadees ki roshni mein Cheenknay ke asool

 



Hadees ki roshni mein Cheenknay  ke asool

چھینکنا ایک قدرتی عمل ہے۔یہ انسانی جسم میں اندرونی یا بیرونی موسمی اثرات کے نتیجے میں عمل میں اتی ہے 
چھینک ہر چھوٹے بڑے کو آتی ہے۔ جب کسی کو چھینک آئے اور وہ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ کہے تو فَرِشتے کہتے ہیں: رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ اوراگرچھینکے والا اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِِّ الْعٰلَمِیْنَ کہتا ہے تو فَرِشتے کہتے ہیں: رَحِمَكَ اللهُ یعنی اللہ عَزَّوَجَلَّ تجھ پر رَحم فرمائے۔(معجم کبیر،ج11،ص358، حدیث: 12284)بہتریہ ہے کہ اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن یا اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلٰی کُلِِّ حَال کہے، سننے والے پر واجِب ہے کہ فو راً ’’یَر حَمُکَ اللّٰہ‘‘( یعنیاللہ عَزَّوَجَلَّ تجھ پر رحم فرمائے)کہے  اور اِتنی آواز سے کہے کہ چھینکنے والا سن لے۔(بہارِشریعت حصّہ16،ج 3،ص476،477 ماخوذاً) جواب سُن کر چھینکنے والاکہے: یَغْفِرُاللّٰہُ لَنَا وَ لَکُمْ (یعنی اللہ عَزَّوَجَلَّ ہماری اور تمہاری مَغفِرت فرمائے) یا یہ کہے :’’یَھْدِیْکُمُ اللّٰہُ وَیُصْلِحُ بَالَکُمْ ‘‘(یعنی اللہ عَزَّوَجَلَّ تمہیں ہِدایت دے اورتمہارا حال دُرُست کرے) چھینک کے وَقت سر جھکایئے ، منہ چُھپایئے اور آوا ز آہِستہ نکالئے، چھینک کی آواز بُلند کرنا حَماقت ہے ۔ (رد المحتار،ج9،ص684،685 ملتقطاً)

حکمت:٭جو کوئی چھینک آنے پراَلْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلٰی کُلِِّ حَال کہے اور اپنی زبان سارے دانتوں پر پھیر لیا کرے تو اِن شاءَ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ دانتوں کی بیماریوں سےمَحفوظ رہے گا۔( مراٰۃُ المناجیح ،ج6،ص396) ٭حضرتِ مولائے کائنات، علیُّ المُرتَضٰی کَرَّمَ اللّٰہُ تعالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم فرماتے ہیں:جوکوئی چھینک آنے پراَلْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلٰی کُلِِّ حَال کہے تو وہ داڑھ اور کان کے درد میں کبھی مبتَلانہیں ہوگا۔(مصنف ابن ابی شیبہ،ج 15،ص381، حدیث: 30430) چھینک کا جواب واجب ہے: چھینک کا جواب ایک مرتبہ واجِب ہے، دوسری بار چھینک آئے اور وہ اَلْحَمْدُلِلّٰہِ کہے تو دوبارہ جواب واجِب نہیں بلکہ مُستَحَب ہے۔

Waldain Ke Huqooq ada karna والدین کے حقوق ادا کرنا


Waldain Ke Huqooq ada karna

 

Waldain Ke Huqooq ada karna

والدین کے حقوق ادا کرنا

قراٰنِ کریم کی تعلیم جہاں اللہ پاک کی عبادت کا حکم دیتی ہے وہیں انسان کو والدین کی اطاعت و فرماں برداری اور ان کے ساتھ حُسنِ سلوک سے پیش آنے کی تاکید بھی فرماتی ہے۔ قراٰنِ پاک میں 4سے زائد مقامات پر والدین کے ساتھ حُسنِ سلوک اور ان کی اطاعت و فرماں برداری کا مختلف انداز میں بیان ہے، لہٰذا والدین کی اطاعت ضروری ہے اور اس میں کوتاہی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔


آئیے! والدین کے حقوق کے متعلق پانچ احادیثِ مبارکہ ملاحظہ کیجئے:


(1)والدین کی خدمت کرنا: ایک شخص نے حضور علیہ السّلام کی بارگاہ میں حاضر ہو کر جہاد میں جانے کی اجازت مانگی تو آپ علیہ السّلام نے فرمایا: تیرے والدین زندہ ہیں؟ عرض کی: جی ہاں، نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: ان دونوں کی خدمت کر یہی تیرا جہادہے۔ (بخاری، 2/310، حدیث: 3004)


(2)والدین کو ناراض نہ کرنا: حضرت ابو امامہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے عرض کی: یا رسولَ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم! ماں باپ کا اولاد پر کیا حق ہے؟ فرمایا: وہ دونوں تیری جنّت اور دوزخ ہیں۔(ابن ماجہ، 4/186،حدیث:3662) یعنی تیرے ماں باپ تیرے لئے جنّت دوزخ میں داخلہ کا سبب ہیں کہ انہیں خوش رکھ کر تو جنتی بنے گا انہیں ناراض کرکے دوزخی، یہ فرمان عالی وعدہ وعید دونوں کا مجموعہ ہے اگرچہ یہاں خطاب بظاہر خاص ہے مگر حکمِ تا قیامت عام ہے۔(مراٰۃ المناجیح، 6/540)


(3)ماں باپ کو گالی نہ دینا: رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: یہ بات کبیرہ گناہوں میں سے ہے کہ آدمی اپنے ماں باپ کو گالی دے۔ عرض کیا گیا: یا رسولَ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم! کوئی اپنے ماں باپ کو کیسے گالی دے سکتا ہے؟ فرمایا: اس کی صورت یہ ہے کہ یہ دوسرے کے باپ کو گالی دیتا ہے تو وہ اِس کے ماں باپ کو گالی دیتا ہے۔(بخاری، 4/94، حديث: 5973)


(4)والدین کی قبر پر جانا: والدین کی وفات کے بعد بھی اولاد پر والدین کا حق لازم ہے وہ یہ کہ ان کی قبر پر جائے ایصالِ ثواب کرے تو یہ اس شخص کیلئے بھی باعثِ ثواب ہے جیسا کہ حدیثِ پاک میں ہے: نبیِّ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جو ماں باپ دونوں یا ان میں سے کسی ایک کی قبر پر ہر جمعہ کو زیارت کے لئے حاضر ہو تو اللہ پاک اس کے گناہ بخش دے گا اور وہ ماں باپ کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے والا لکھا جائے گا۔ (معجم اوسط للطبرانی،4/321،حديث: 6114)


(5)بڑھاپے میں والدین کی خدمت کرنا: اللہ پاک کے آخری نبی حضرت محمدِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اُس کی ناک خاک آلود ہو، اس کی ناک خاک آلود ہو، اس کی ناک خاک آلود ہو (یعنی ذلیل و رسوا ہو) کسی نے عرض کیا: یارسولَ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم وہ کون ہے؟ حضور علیہ السّلام نے فرمایا: جس نے ماں باپ دونوں یا ایک کو بڑھاپے کے وقت میں پایا پھر ان کی خدمت کر کے جنت میں داخل نہ ہوا۔ (مسلم، ص 1060، حدیث: 6510)


اللہ ربُّ العزّت ہمیں اچھےطریقے سے والدین کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ان کی ناراضی سے محفوظ فرمائے اور جنت کا حقدار بنائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ خاتَمِ النّبیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


brightstars Hazrat Imran bin Hussain حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہما روشن ستارہ

 

brigh   حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہما  روشن ستارہ

 حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہماروشن ستارے

ایک مرتبہ کسی نےمشہور صحابی حضرت سیدنا عمران بن حصین رضیَ اللہ عنہما سے ایک شرعی مسئلہ پوچھا:ایک آدمی نے اپنی بیوی کو ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دے دیں، اس صورت میں عورت اس پر حرام ہوگئی یا نہیں ؟ آپ رضیَ اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا: ایک مجلس میں تین طلاقیں دینے والا گناہ گار ہے اور عورت اس پر حرام ہوگئی ہے، اب اسی شخص نے جلیل القدر صحابی حضرت سیدنا ابو موسیٰ اشعری رضیَ اللہ عنہ کی خدمتِ اقدس میں یہی مسئلہ بتاکر حضرت عمران بن حصین کی عیب جوئی کرنا چاہی تو حضرت ابو موسی اشعری رضیَ اللہ عنہ نے (نہ صرف حضرت عمران کے جواب کی تصدیق فرمائی بلکہ) آپ کے لئے دعاکی : الٰہی! ہمارے اندر ابو نُجَیْد (حضرت عمران بن حصین) جیسے بہت سے آدمی پیدا فرمادے۔ 


 حضرت ابونُجَیْدعمران بن حصین 7 ہجری میں اسلام لائے صحیح قول کے مطابق آپ کے والد صاحب بھی مسلمان ہوگئے تھےآپ نے کئی غزاوات میں شرکت کی، فتحِ مکہ کے موقع پرآپ رضیَ اللہ عنہ اس شان سے مکہ کی حدود میں داخل ہوئے کہ قبیلہ خزاعہ کا جھنڈا آپ کے ہاتھ میں تھا۔ حنین اور طائف کے معرکوں میں بھی آپ پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ساتھ ساتھ رہے۔ آپ نے اپنی رہائش اپنے قبیلے میں رکھی لیکن بکثرت مدینے آتے رہتے اور پیارے نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے سوالات پوچھتے رہتے ایک مرتبہ آ پ رضیَ اللہ عنہ نے بیٹھ کر نماز پڑھنے والے شخص کے بارے میں سوال کیا تو نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جس نے کھڑے ہوکر نماز پڑھی وہ افضل ہے، جس نے بیٹھ کر نماز پڑھی اس کے لئے کھڑے ہوکر نماز پڑھنے والے کے ثواب کا آدھا ہے، اور جو لیٹ کر نماز پڑھے اس کےلئے بیٹھنے والے کے ثواب کا آدھا ہے۔


علمی مقام: علم وفضل کے اعتبار سے حضرت عمران بن حصین رضیَ اللہ عنہما کا شمار فقہا صحابہ میں ہوتا ہے۔

فاروقِ اعظم رضیَ اللہ عنہ نے بصرہ والوں کو فقہی مسائل کی تعلیم دینے کےلئے آپ کا انتخاب کیا اور آپ کو بصرہ بھیجا 

مشہور تابعی بزرگ حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: بصرہ میں ہمارے پاس آنے والوں میں سب سےبہتر عالم فاضل شخصیت حضرت عمران بن حصین رضیَ اللہ عنہما کی تھی۔


جذبَۂ علمِ دین: حضرت عمران رضیَ اللہ عنہ کے سر اور داڑھی کے بال سفید ہوچکے تھے مگر علمِ دین سکھانے کا جذبہ عروج پر تھا لہٰذا اس حالت میں بھی ایک ستون سے ٹیک لگاکر ارد گرد بیٹھے علم کے طلب گاروں کو فرامین ِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم بیان کرتے۔ 


حدیث کی اہمیت: ایک مرتبہ آپ نے حدیث بیان کرنا شروع کی تو ایک شخص نے کہا: ہمیں کتابُ اللہ سے کچھ بیان کیجئے، یہ سن کر آپ ناراض ہوگئے اور فرمایا: تم بے وقوف ہو، اللہ پاک نے کتاب اللہ میں زکوٰۃ کو تو بیان کیا ہے مگر یہ کہاں فرمایا ہے کہ دو سو (درہم ) میں سے پانچ (درہم ) ہوں گے، اللہ کریم نے اپنی کتاب میں نماز کا تو ذکر کیا ہے مگریہ کہاں فرمایا ہے کہ ظہر،عصر اور عشاء کی چار، مغرب کی تین اور فجر کی دو رکعتیں فرض ہیں، اللہ رحیم نے قراٰن مجید میں طواف کا تو ذکر فرمایا ہے لیکن یہ کہاں بیان کیا ہے کہ طَواف اور صفا مروہ کے چکر سات ہیں، ہم احادیث میں یہاں یہی احکام بیان کرتے ہیں احادیثِ مصطفےٰ قراٰن کی تفسیر ہیں۔ 

ایک مرتبہ آپ نے حدیث بیان کی کہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا: حیا بھلائی ہی لاتی ہے، کسی نے کہا:کسی کتاب میں لکھا ہےکہ بعض دفعہ حیا سے وقار اور اطمینان ملتا ہے اور بعض دفعہ اس سے کمزوری۔ آپ نے فرمایا: میں تمہیں رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی حدیث بتارہا ہوں اور تم مجھ سے کسی کتاب کی بات کررہے ہو میں اب تمہیں حدیث بیان نہیں کروں گا۔


فرمانِ مبارک: حضرت سیّدنا عمران بن حصین رضی اللہُ عنہما فرماتے ہیں: کھانا کھلانے والے چلے گئے اور کھانا مانگنے والے رہ گئے، وعظ ونصیحت کرنے والے چلے گئے اور غافل لوگ پیچھے رہ گئے۔


جج کا عہدہ چھوڑ دیا: ایک مرتبہ آپ رضیَ اللہ عنہ کو گورنرِ بصرہ کی جانب سےبصرہ کا قاضی ( یعنی جج)مقرر کیا گیا، دوآدمی اپنا جھگڑا لے کر آئے، آپ نے ایک کے حق میں فیصلہ دیا تو دوسرا کہنے لگا: آپ نے میرے خلاف فیصلہ دیا ہے، اللہ کی قسم! یہ غلط فیصلہ ہے، یہ سن کر آپ رضیَ اللہ عنہ گورنر کے پاس چلے آئے اور اپنا استعفیٰ پیش کردیا، گورنر نے کہا: آپ کچھ عرصہ اس عہدہ پر برقرار تَو رہئے، مگر آپ نے فرمایا: نہیں! جب تک میں اللہ کا عبادت گزار اور اطاعت و فرمانبرداری کرنے والا ہوں دو بندوں کے درمیان کبھی فیصلہ نہیں کروں گا۔ 

 ایک مرتبہ ایک شخص نے آپ رضیَ اللہ عنہ کے سامنے سورۂ یوسف پڑھی آپ نے سورت توجہ سے سنی، پھر وہ شخص آپ سے کچھ مانگنے لگا، آپ رضیَ اللہ عنہ نے کہا: اِنَّا لِلّٰہ ِوَاِنَّا اِلَیْہِ رٰجِعُوْن، پیارے نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایاہے: تم قراٰن پڑھو پھر اللہ سے سوال کرو، عنقریب ایک قوم آئے گی جو قراٰن پڑھے گی اور لوگوں سے مانگے گی۔


صبر و شکر اور بیماری حضرت سیدنا عمران بن حصین رضیَ اللہ عنہما بڑے صابر و شاکر تھے۔ 30 سال کے طویل عرصہ تک پیٹ کی بیماری میں مبتلا رہے اس بیماری میں آپ نہ تو کھڑے ہوتے نہ بیٹھتےبس پیٹھ کے بل لیٹے رہتے۔


فرشتوں کے سلام کی آواز سُنائی دیتی حضرت سیدنا عمران بن حصین رضیَ اللہ عنہماکو فرشتے سلام کیا کرتے تھے جس کی آواز آپ خود سنتے تھے۔فرماتے ہیں: فرشتے مجھے سلام کیاکرتے تھے، کسی نے پوچھا: سلام کی آواز آپ کے سر کی جانب سے آتی تھی یا پاؤں کی طرف سے؟ فرمایا: سر کی جانب سے۔


وصال حضرت عمران بن حصین رضیَ اللہ عنہما نے سن 52 ہجری میں وصال فرمایا، کتبِ احادیث میں آپ کی 130 روایات ملتی ہیں۔



سب سے افضل صدقات

  

سب سے افضل صدقات

سب سے افضل صدقات:-

کون سا صدقہ افضل ہے؟ اس حوالے سے حکیمُ الاُمّت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: یوں تو ہر صدقہ بہرحال اچھا ہے مگر کبھی بعض عارضی حالات میں بہت اچھا ہوجاتا ہے خواہ خیرات دینے والے کی ہو یا لینے والے کی ہو یا مال کی جیسے تندرستی کی خیرات مرتے وقت کی خیرات سے بہتر ہے یوں ہی متقی پرہیزگار عیال دار کو خیرات دینا فاسق کو دینے سے بہتر،اسی طرح جس چیز کی اس وقت تنگی ہو اس کا صدقہ افضل ہے جہاں پانی کی تنگی ہو وہاں کنواں کھدوانا بہت باعثِ ثواب ہے۔


اس مضمون میں ان اعمال کا تذکرہ کیا جارہا ہے کہ جن کو دینِ اسلام میں افضل صدقہ قرار دیا گیا ہے،آئیے! معلومات میں اضافے اور عمل کرنے کی نیت کے ساتھ 12 احادیثِ مبارکہ پڑھئے:


(1)زندگی میں اپنے لئے صدقہ


ایک شخص نے نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے افضل صدقہ کے بارے میں پوچھا تو ارشاد فرمایا:افضل صدقہ یہ ہے کہ تم اس حال میں صدقہ کرو کہ تندرست ہو، مال کی ضرورت ہو، تنگ دستی کا ڈر ہواور مالداری کا اشتیاق ہویہ نہ ہو کہ جب دم گلے میں اَٹکے اس وقت کہے کہ فُلاں کو اتنا فُلاں کو اتنا، کہ اب تو فُلاں کے لئے ہو ہی چکا۔


ہر انسان کو دنیا سے رخصت ہوتے وقت تو پتا ہی ہے کہ یہ مال اب میرے کام آنے والا نہیں تو بجائے اس وقت کا انتظار کرنے کے ہمیں چاہئے کہ افضل پر عمل کریں اور زندگی کے اس مرحلہ میں صدقہ کریں کہ جس میں مال کی طلب اور تنگ دستی کا خوف بھی اور صحت و سلامتی بھی ہو۔


(2)زبان کاصدقہ


حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہُ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: سب سے افضل صدقہ زبان کا صدقہ ہے۔صحابَۂ کرام علیہمُ الرّضوان نے عرض کی: یارسولَ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم! زبان کا صدقہ کیا ہے؟ فرمایا: وہ سفارش جس سے کسی قیدی کو رہائی دے دی جائے، کسی کا خون گرنے سے بچا لیا جائے اور کوئی بھلائی اپنے بھائی کی طرف بڑھا دی جائے اوراس سے کوئی مصیبت دور کردی جائے۔


تو اگر ہمیں اللہ پاک نے کوئی مقام عطا کیا ہے، کہیں ہمارا کچھ اثر و رسوخ (Influence)ہے تو ہمیں اس کو مثبت اور نیکی کے کاموں میں استعمال کرنا چاہئے، اپنی زبان سے مخلوقِ خدا کی مدد کرنا چاہئے ایسا نہ ہو کہ ہمارے منصب اور ہماری سفارشیں ظالم ومجرم کو بچانے میں لگ جائیں۔


(3)علم سیکھنا اور سکھانا


حضرت ابو ہریرہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے رسولِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ سب سے افضل صدقہ یہ ہے کہ مسلمان علم سیکھے،پھر اپنے اسلامی بھائی کو سکھائے۔


(4)پیٹ بھرکر کھلانا


حضرت انس رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے کہ پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:سب سے افضل صدقہ بھوکی جان کو شکم سیر کرنا ہے۔


مہنگائی کے اس دور میں اپنے رشتہ داروں، دوستوں پڑوسیوں وغیرہ کا خاص خیال رکھیں! ہماری یہ کوشش ہونی چاہئے کہ اگر استطاعت ہے تو ہمارے ہوتے ہوئے ہمارے اِردگِرد کوئی بھوکا نہ سوئے۔


(5)رمضان میں صدقہ کرنا


حضرت انس رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں کہ نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے سوال کیا گیا کہ رمضان کے بعد کون سا روزہ افضل ہے؟ فرمایا: رمضان کی تعظیم کے لئے شعبان کا روزہ رکھنا۔پھر پوچھا گیا:سب سے افضل صدقہ کونسا ہے؟ فرمایا: رمضان میں صدقہ کرنا۔


رمضان تو مہینا ہی ثواب اکٹھا کرنے کا ہے تو پیارے اسلامی بھائی اس ماہِ مبارک میں نماز روزوں کی کثرت کے ساتھ ساتھ صدقہ و خیرات میں بھی اضافہ کرنا چاہئے۔


(6)کینے والے رشتے دار کو صدقہ دینا


حدیثِ پاک میں ہے:سب سے افضل صدقہ وہ ہے جو کینہ پرور (دِل میں دُشمنی رکھنے والے) رشتہ دار کو دیا جائے۔


رشتہ داروں سے بات چیت ختم کرنے اور تعلقات توڑنے کی اسلام میں کوئی جگہ نہیں، اسلام ہمیں لڑائی جھگڑے ناچاقیوں سے دور رہنے کا درس دیتا ہے۔ لہٰذا ان رشتہ داروں کے ساتھ بالخصوص خیرخواہی کا معاملہ فرمائیں جو آپ کے لئے اپنے دلوں میں ناراضیاں اور دشمنیاں لئے بیٹھے ہیں، اگر آپ برے وقت میں ان کے ساتھ کندھا ملائیں گے تو بہت ممکن ہے ان کا دل موم ہوجائے اور نفرتیں محبتوں میں بدل جائیں۔


(7)روٹھے ہوئے لوگوں میں صلح کروانا


حضرت عبد اللہ بن عَمرو رضی اللہُ عنہما سے روایت ہے کہ پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:سب سے افضل صدقہ روٹھے ہوئے لوگوں میں صلح کرادینا ہے۔


محترم قارئین! ایک مسلمان کو زیب نہیں دیتا کہ وہ لوگوں کے درمیان بگڑتے ہوئے تعلقات پر خوش ہو یا جلتی پر تیل چھڑکے، ہمیں صرف اور صرف محبتیں بڑھانے میں اپنا حصہ ملانا چاہئے۔


(8)درہم یا سواری پیش کرنا


حضور نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:کیا تم جانتے ہوکہ کون سا صدقہ افضل ہے؟صحابہ نے عرض کی: اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں۔تو آپ نے ارشاد فرمایا: افضل صدقہ درہم دینا یا سواری پیش کرنا ہے۔


محلے یا دفتر وغیرہ میں جن کے ساتھ ہمارے شب و روز گزر رہے ہیں، کبھی ان کو پیسے یا گاڑی وغیرہ کی ضرورت پڑے تو ایسے میں ہمیں بہانے بنانے کے بجائے ان کی مدد کرنی چاہئے۔


(9، 10)پانی پلانا


حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہُ عنہ نے پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمتِ بابرکت میں عرض کی:يا رسولَ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم! کون سا صدقہ افضل ہے؟ تو آپ نے ارشاد فرمایا:پانی پلانا۔


ایک روایت میں ہے: حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہُ عنہ نے سرکارِ مدينہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہِ اقدس ميں حاضر ہو کر عرض کی:يا رسولَ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم! ميری والدہ محترمہ فوت ہو گئی ہيں لہٰذا کون سا صدقہ افضل ہے؟ تو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:”پانی۔“ تو انہوں نے ايک کنواں کھدوايا اور کہا:ھٰذِہٖ لِاُمِّ سَعْدٍ یعنی يہ کنواں سعد کی والدہ ماجدہ (کے ایصالِ ثواب) کے لئے ہے۔ معلوم ہوا کہ زندوں کے اعمال سے مردوں کو ثواب ملتا اور فائدہ پہنچتا ہے۔


(11)بیوہ یا مطلقہ بیٹی پر صدقہ کرنا


نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: کیا میں تم کو یہ نہ بتا دوں کہ افضل صدقہ کیا ہے، وہ اپنی اس لڑکی پر صدقہ کرنا ہے، جو تمہاری طرف واپس ہوئی (یعنی اس کا شوہر مرگیا یا اس کو طلاق دے دی اور باپ کے یہاں چلی آئی)تمہارے سوا اس کا کمانے والا کوئی نہیں ہے_


محترم قارئین! طلاق یا بیوہ ہونے والی خواتین کے ساتھ گھر والوں کے برتاؤ کی دردناک صورت حال کبھی نہ کبھی آپ نے بھی اپنے ارد گرد دیکھی ہوگی، اللہ پاک ہماری بہن بیٹیوں کو اس آزمائش سے بچائے، لیکن اگر کبھی ہمارے ساتھ اس طرح کا معاملہ ہوبھی جائے تو ہمیں پیارے آقا کی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے ان کے ساتھ خیر خواہی والا معاملہ ہی کرنا ہے۔


(12)غريب کی مشقت کی کمائی کاصدقہ


حضرت ابو ہريرہ رضی اللہُ عنہ سے مروی ہے، انہوں نے عرض کی: يا رسولَ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کونسا صدقہ زيادہ بہتر ہے؟ فرمايا: غريب آدمی کی مشقت اور (دينے ميں) ان سے شروع کرو جن کی پرورش کرتے ہو۔


اس فرمانِ عالی کے دو مطلب ہوسکتے ہیں:ایک یہ کہ غریب آدمی مشقت سے پیسہ کمائے پھر اس میں سے خیرات کرے۔ دوسرے یہ کہ فقیر کو خود بھی ضرورت ہو خود مشقت و تکلیف میں ہو اس کے باوجود اپنی ضرورت روک کر خیرات کرے دوسرے کی ضرورت کو مقدم رکھے، مگر یہ دوسرے معنی اس فقیر کے لئے ہوں گے جو خود صابر ہو اور اکیلا ہو بال بچے نہ رکھتا ہو ورنہ آج خیرات کرکے کل خود بھیک مانگنا یوں ہی بال بچوں کے حقوق مارکر خیرات کرنا کسی طرح جائز نہیں۔ ہاں اگر کسی کے بال بچے بھی حضرت ابوبکر صدیق کے گھر والوں کی طرح صابر ہوں پھر وہ جناب صدیقی کی طرح خیرات کردے تو یہ اس کی خصوصیت ہے، سلطان عشق کے فیصلے عقل سے وراء ہیں۔